کراچی کے ایک حالیہ واقعہ کی ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ڈلیوری بوائے کے پاس ماسک لگائے دو نوجوان موٹر سائیکل پر آکر رکے۔ ان میں سے ایک نے پُھرتی سے ڈلیوری بوائے پر پسٹل تان لیا۔ ڈلیوری بوائے نے حکم کے مطابق جیب میں موجود چند سو روپے اور موبائل ڈکیت کے حوالے کیا۔ چونکہ ڈلیوری بوائے طالب علم تھا اور گھر والوں کا ہاتھ بٹانے کے لئے مانگ تانگ کر ڈلیوری کا کام شروع کیا تھا۔ اس لئے ناگہانی صورتحال میں اپنے خواب، اور گھر والوں کی امیدیں آنسوؤں کی صورت بہہ نکلیں۔ دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی، جب آنے والے لٹیروں کو ان آنسوؤں نے گھائل کر دیا۔ نہ صرف پیسے اور موبائل لٹا دیا بلکہ گلے لگا کر حوصلہ دیا اور کہا کہ یار، آخر ہمارا بھی دل ہے۔
کئی دیکھنے والوں نے ان لٹیروں کو رحم دل جانا۔ لیکن خدا لگتی کہوں تو مجھے ان کی نالائقی پر رحم آیا۔
ایسی واردات کیلئے آنا حد درجہ خطرناک ہوتا ہے۔ کئی بار یہ لوگ مشکوک سمجھ کر ہی دھر لئے جاتے ہیں۔ عوام گھیر لے تو مار، مار کر شکل بگاڑ دیتی ہے۔ پھر گرفتار ہونے یا مارے جانے کا خدشہ تو ہوتا ہی ہے۔ اگر واردات کامیاب ہو جائے اور چند ہزار روپے ہاتھ لگ بھی جائیں، تو پکڑے جانے کا خوف چَین نہیں لینے دیتا۔ اور جلد یا بدیر پولیس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ پولیس سے معاملات طے نہ ہوں تو چھترول کے ساتھ دیگر بھائی بندوں کے حل طلب مقدمات بھی گلے پڑ جاتے ہیں۔
لٹیروں کی نالائقی اپنی جگہ لیکن پاکستانی ہونے کے ناطے مشورہ اور عوام کی پسند گوش گذار کرنے کی سوجھی۔
اگر یہ صاحبان لوٹ مار کو ہی اپنا کیرئیر بنانا چاہتے ہیں۔ تو ضروری ہے کہ “پیشہ وارانہ” طریقہ واردات اپنائیں۔ وہ طریقہ واردات، جس میں بدترین دشمنی کا مظاہرہ کرنے والی عوام اور پولیس قدم چومتی نظر آئے۔
تو جناب نالائق ڈکیت صاحبان جلد یا بدیر آپ کا پولیس کے ہتھے چڑھنا یقینی ہے۔ بہتر ہوتا کہ دوسروں کے تجربات سے ہی سیکھ لیتے۔ خیر اب بِلا، ہڈی پسلی ٹوٹے گرفتار ہونے کو غنیمت جانتے ہوئے۔ گرفتاری کو “تربیت” کا حصہ سمجھئے۔ اور پورے دھیان سے پولیس سے کام نکلوانے کے تیر بہدف فارمولے ازبر کرلیں۔ کیونکہ پولیس کلچر آپکی “پیشہ وارانہ کامیابی” کے لئے پہلی سیڑھی ہے۔ یہ ہی پولیس آپ کو اگلی تربیت گاہ یعنی عدالت لے جائے گی۔ فرسودہ نظام قانون سے اپنے لئے آسانی اور دوسروں کیلئے گڑھے کھودنا، قانون خریدنا اور مخالف کو گھسیٹنا سیکھئے۔ عدالت آپکی اگلی منزل یعنی جیل کی طرف روانگی کا حکم جاری کرے گی۔ جیلوں میں اصلاح یا مفید شہری بننے کی بجائے، کرپشن، رشوت ستانی، لوٹ مار، سفاکیت جیسی ساری چیزیں سیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہاں عادی مجرم اور جیل عملہ آپکی تربیت کا پورا اہتمام کرتا ہے۔ اور قابلیت دیکھ کر جیل عملہ فرنٹ مین اور ٹاؤٹی بھی خوب سکھاتا ہے۔ جیل کا ماحول چند دن میں ہی جُرم سے جُڑی نفرت اور خوف دل سے نکال دیتا ہے۔ اس جرم پرور ماحول کے طفیل ہی کچے چور، عادی مجرم بن کر نکلتے ہیں۔
اب اگر لوٹ مار میں ہی “کیرئیر” بنانے کا فیصلہ حتمی ہے۔ جس کے لئے ضروری تربیت بھی حاصل کر چُکے ہیں، تو خود اپنی ذات پہ مہربانی کرتے ہوئے، نالائقی بھی چھوڑ دیں۔ اپنے آپ کو اس لوٹ مار کے نظام میں نام کمانے کے لئے تیار کریں۔ موروثی وسائل نہ ہوں تو پنچائتی، عوامی خدمت گار، صحافی، اور سماجی راہنما بن کر سفر شروع کیجئے۔ عوام کے لئے “آل راؤنڈر” کا روپ دھاریں۔ تھانے، کچہری اور محکمانہ پیچیدگیوں میں پھنسی عوام کے مسیحا بنیں۔ چھوٹی، موٹی لوٹ مار سے توبہ کریں۔ لوٹ مار کے پیشہ وارانہ آداب کو اپنائیں۔ بڑی لوٹ مار کیلئے ہمارے جیسے ملکوں میں سیاسی میدان سب سے سازگار ہے۔ خدا خوفی، ضمیر کی آواز، نظریہ اور انسانی ہمدردی جیسے تکلفات سے بھی نکلیں۔ کمزور کے لئے چنگیز خاں اور طاقتور کی چاپلوسی کو اپنا شعار بنائیے۔ اپنے مفادات کو پوجنا سیکھیں۔ تماشہ بننے کی بجائے تماشہ لگانے والے بنیں۔ جلد تھانہ، کچہری میں آپکا سکہ چلے گا۔ عوامی ہمدردی سے بھرے بیان، آپ دیں یا نہ دیں، اخبارات کی زینت بنتے رہیں گے۔ وعدہ وعید کا دانہ ڈالتے رہیں۔ حسب ضرورت عوام کو سبز باغ بھی دکھائیں۔ دھیرج رکھیں اور اپنی باری کا انتظار کریں۔ باری کا انتظار نہ کرنا چاہیں تو الیکشن قریب آتے ہی، متوقع حکمراں پارٹی میں شامل ہوجائیں۔ ووٹ کی بولی ہونے پر جی بھر کر اپنی قیمت وصول کیجئے۔ اپوزیشن پارٹی میں ہوں تو حکومتی نااہلی پہ سیخ پا دکھائی دیں۔ اور اقتدار میں آئیں تو ویسی ہی بدانتظامی کا ڈٹ کر دفاع کریں۔ جس قدر ڈھٹائی سے اپنی پارٹی کے لئے بولیں گے۔ آپکی مارکیٹ ویلیو اتنی ہی بڑھے گی۔ رج کے کھانے کے ڈھیروں مواقع ملیں گے۔ واردات مکمل ہونے سے پہلے پکڑے جانے کا امکان صِفر سمجھیں۔ کبھی چوری پکڑی بھی گئی تو دے دلا کر منہ بند کرانے کا موقع ملے گا۔ زیادہ شور اٹھنے پر وزیراعظم صاحب نوٹس لیں گے، کمیٹی بنے گی، بے رحم احتساب، لوٹی دولت کی وصولی اور قرار واقعی سزا کا اعلان ہوگا۔ سڑکوں پر گھسیٹنے، پیٹ پھاڑ کر عوام کا پیسہ نکالنے، بیرون ملک سے بھی لوٹی رقم واپس لانے کے اعلانات ہوں گے۔ لیکن ایسے اعلانات سے گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں، کیونکہ ہمیشہ سیاسی نورا کشتی طے شدہ طریقہ کار پر لڑی جاتی ہے۔ حکمراں جماعت اسی قدر رگڑا لگائے گی، جس قدر خود برداشت کر سکے۔ میڈیا میں چلتی خبروں کی بالکل پرواہ نہ کریں۔ یہ عوام جو سو روپے چوری کرنے والے کو جان سے مارنے تک جاتی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ بڑی تعداد آپ کی ترجمان بن جائے گی۔ دو گروہوں میں بٹ کر گرما گرم بحث مباحثے کریں گے۔ آپ کے حامی، دفاع کے لئے مخالفین کی لوٹ مار کا ریکارڈ سنائیں گے۔ باہم سر پھٹول ہو گی، لیکن آپ کی جے، جے کار ہی سنائی دے گی۔ اور آخری بات کہ لوٹ مار کے اس مشن میں آزمودہ تین میں سے کسی بھی ایک طریقہ کو اپنائیں، کیونکہ فی الحال کوئی چوتھا طریقہ مارکیٹ میں نہیں ہے۔ اور ان تینوں طریقوں کے چاہنے والے وافر مقدار میں موجود ہیں۔ جو آپ کی خاطر لڑنے مرنے کو بھی ہردم تیار ملیں گے۔ پہلا اور بارہا آزمایا گیا طریقہ ہے، مل بانٹ کے کھائیں، یا پھر دوسرا مقبول طریقہ ہے کھائیں تو لگائیں۔ جبکہ تیسرا مقبول اور جدید طریقہ ہے کھائیں، کھلائیں اور بعد میں بتائیں۔
بیش بہا لوٹ مار سے طبیعت میں سہل پسندی آنا فطری ہے، آپ محسوس کریں کہ ملکی ماحول میں گھٹن ہے تو اگلے الیکشن تک دُبئی یا لندن تشریف لے جائیں۔ جب مناسب سمجھیں بطور مسیحا واپس تشریف لائیں۔ کمزور حافظے کی مالک قوم کو منتظر پائیں گے۔
یہ مشورے پوری نیک نیتی سے دیے گئے ہیں۔ مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ لوٹ مار کے لئے عوام میں قابل قبول “پیشہ ورانہ” طریقہ کار اپنایا جائے۔ چند ہزار روپوں کے لئے جان خطرے میں نہ ڈالیں۔ لوٹ مار کو سنجیدہ طریقہ واردات کے تحت ہی چلنے دیں۔ سستی شہرت کے لئے سڑک کنارے جعلی ہیرو بننے والے فلمی سین نہ دکھائیں۔ تاکہ کھانے، اور مزید کھانے کا نظام اسی طرح چلتا جائے۔ مجھے قوی امید ہے کہ نالائق چور عقل سے کام لیں گے۔ اور عوام کو لُٹنے میں حسبِ منشا سہولت فراہم کریں گے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ لُٹنے والے کسی طور بچاؤ پر قائل نہیں ہوئے۔ اور نہ آئندہ ہونے کے آثار ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لُٹنے والوں کی طرف سے لوٹنے والوں کو سمجھانے کی سوجھی۔ لُوٹیں جناب، لُوٹیں لیکن ہمارے پسندیدہ طریقہ سے
✍️ عبدالرحمٰن عمر ایڈووکیٹ