فضائی حادثوں کی تاریخ، فضا میں اڑنے جتنی ہی پرانی ہے۔ پہلا جہاز فضا میں بلند ہوا تو پرواز کے صرف 12 سیکنڈ بعد ہی زمین پر آگرا۔ جہاز ایجاد کرنے اور اڑانے والے رائٹ برادران زخمی ہوئے اور جہاز بھی ٹوٹ گیا۔ مگر 12 سیکنڈ کی اس مختصر پرواز نے انسان کے اک قدیم خواب کو تعبیر دے دی۔ اگرچہ جہاز ٹوٹ گیا، بنانے اور اڑانے والے بھی زخمی ہوئے، لیکن اس گرنے نے، آئندہ نہ گرنے، اور لمبے سفر کرنے کی راہ ہموار کر دی۔ چند ہی عشروں میں ہوا بازی کی صنعت قائم ہوگئی۔ جہاز سے وابستہ سہولت، محفوظ اڑان کے بغیر ناممکن تھی۔ یہی وجہ ہے کہ فضائی صنعت میں مشینی ترقی اور حفاظتی تدابیر ہم قدم رہیں۔ جہازوں کے بنانے، مرمت کرنے، اڑانے، حفاظتی انتظامات، فضا و زمین پہ راہنمائی، جیسے سارے عمل کو مربوط انداز میں چلانے کے لیے منظم شعبہ جات تشکیل پائے۔ فضائی صنعت کے پورے نظام میں بہتری کے لیے جہاں جدید ٹیکنالوجی نے اپنا کام دکھایا، وہیں ان پہاڑ جیسی مشینوں سے متعلقہ افراد کی بہتر کارکردگی، نظم و ضبط اچھے انتظام انصرام اور منفی رویوں کے تدارک کے لیے بھی طریقہ کار وضع کیا گیا۔
چونکہ جہاز کو اڑانا مشکل اور سخت تربیت کا متقاضی تھا۔ پھر دوران پرواز پیچیدہ اور متفرق عوامل پہ نظر رکھنے اور پائلٹ کی سہولت کیلئے 1912ء میں ہی پہلا آٹو پائلٹ پروگرام نصب کردیا گیا۔ آٹو پائلٹ نظام متعلقہ اعدادوشمار، موسم، محل وقوع، رفتار وغیرہ جیسے کئی حوالوں سے راہنمائی اور سہولت کا کام کرتا ہے۔ اور پھر پوری صدی سے زائد انسانی تجربات بھی آٹو پائلٹ کے ذریعے پائلٹ کی راہنمائی کا کام کرتے ہیں۔
طیارہ ساز کمپنیاں جہاز کے سٹارٹ ہونے سے ایئرپورٹ پہ رکنے تک ہونے والی گفتگو اور جہاز کے مختلف پرزوں کی کارکردگی کا مکمل ریکارڑ بلیک باکس میں محفوظ رکھنے کا انتظام کرتی ہیں۔ بلیک باکس فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر اور کاک پٹ وائس ریکارڈر پہ مشتمل انتہائی محفوظ آلہ ہوتا ہے۔
ایک صدی سے زائد تاریخ رکھنے والی فضائی صنعت میں اکثر حضرت انسان، اس نظام کی کمزور کڑی ثابت ہوا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پائلٹ اور معاون پائلٹ کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں اور رویے پر بطور خاص نظر رکھی جاتی اور کسی بھی قسم کے غیر پیشہ وارانہ رویہ کی صورت میں مناسب کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔ ان تمام تر حفاظتی تدابیر کے باوجود فضائی حادثہ کو خارج از امکان نہیں سمجھا جاتا۔ اور ناگہانی حادثہ کی صورت میں جائے حادثہ پہ امدادی کارروائیوں، شواہد کے محفوظ کرنے اور وجوہات جاننے کیلئے تفتیشی کارروائیوں کو بالترتیب عمل میں لایا جاتا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ فضائی سفر دنیا بھر میں محفوظ ترین گردانا جاتا ہے۔ اور فضائی حادثہ پوری دنیا میں حیرانگی اور غم کا باعث بنتا ہے۔
دوران پرواز انتہائی ناگہانی صورتحال پیش آنے پر جہاز کا پائلٹ “مے ڈے” کال دیتا ہے۔ “مے ڈے” کے یہ نشر ہونے والے الفاظ حفاظتی تدابیر کی ناکامی، فنی یا انسانی غلطی کی بنا پر ممکنہ تباہی کا سامنا ہونے کا اعلان ہوتے ہیں۔ فضائی صنعت میں تمام تر حفاظتی تدابیر، پائلٹس اور عملہ کی تربیت، جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال اور بھاری اخراجات کا مقصد “مے ڈے” کی وحشت ناک کال کو روکنا ہوتا ہے۔ فرانسیسی لفظ “m’aider” میری مدد کرو سے وضع ہونے والے الفاظ “May Day” تین دفعہ دہرانے کی روایت 1921ء سے رائج ہے۔
آج دنیا بھر میں 800 سے زائد فضائی کمپنیز کام کر رہی ہیں۔ فضائی صنعت میں حیران کن ترقی کے باوجود کئی ایک خوفناک حادثات ہوئے ہیں، لیکن ہر حادثہ کی غیر جانبدارانہ تفتیش، غلطیوں کی بے لاگ نشاندہی، اور تدارک کے لیے تجاویز سامنے لانے کی روایت قائم ہے۔ یوں ایک حادثہ، ممکنہ کئی حادثات سے بچنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔
اگر فضائی حادثات اور حفاظتی تدابیر کی تاریخ کو دیکھا جائے تو تین طرح کا طرز عمل نظر آتا ہے۔ پہلا رویہ حادثہ سے سیکھنے اور آئندہ ایسے حادثات سے بچنا ہے۔ اور اسکے لئے آسٹریلیا کی 100 سال قدیم قومی ائیرلائن QANTAS AIRWAYS LIMITED بہترین مثال ہے۔ 1951ء تک مختلف اوقات میں اس ائیرلائن کے آٹھ طیارے انسانی غلطی یا فنی وجوہات کی بنا پر تباہ ہوئے۔ ان آٹھ طیاروں کی تباہی سے سبق لیتے ہوئے۔ پورے ادارہ کے نظام اور پیشہ وارانہ رویوں میں بنیادی تبدیلیاں لائی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1951 کے بعد ان سابقہ69 سالوں میں ایک بھی فضائی حادثہ نہیں ہوا۔ عالمی فضائی صنعت میں یہ ائیر لائن اعلیٰ انتظام اور محفوظ فضائی سفر کی علامت بن چکی ہے۔
اگر دوسروں کے تجربات سے سیکھنے والے دوسری قسم کے رویے کی بات ہو تو 1929ء میں قائم ہونے والی HAWAIIAN AIRLINES ایک بہترین مثال ہے۔ جس کی پوری تاریخ حادثہ سے خالی ہے۔ اگرچہ دو بار یہ کمپنی مالیاتی بحران کے باعث دیوالیہ ہوئی لیکن حفاظتی انتظامات پہ کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا گیا۔ ایسی ہی ایک مثال EMIRATES AIRLINES کی بھی ہے۔ جو اپنے 257 جہازوں کی ہفتہ وار 3600 پروازوں کے باعث مصروف ترین فضائی کمپنی ہے۔ لیکن اس کے باوجود فضائی حادثہ یا انسانی جان کے ضیاع کا ریکارڈ نہ ہے۔
بدقسمتی سے ہمارا رویہ اوپر بیان کردہ دونوں رویوں سے متضاد ہے۔اور خوفناک بات، یہ بھی ہے کہ یہی غلط رویہ، ہماری پہچان بن چکا ہے۔ یعنی نہ تو خود اپنے یا دوسروں کے تجربہ سے سیکھنا۔ حادثہ پہ مجرمانہ سرد مہری اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ، ایسے حادثات ہوتے ہی رہتے ہیں، سیاسی پوائنٹ سکورنگ، مخصوص ایجنڈہ کے تحت حادثہ کو نیا رنگ دینا، یا پھر جاں بحق ہونے والے پائلٹ کے سر ڈال کر، ماتحت افسران پہ مشتمل کمیٹی قائم کرکے بات آئی گئی کر دینا۔ یوں ایک “مے ڈے” کی کال کے بعد دوسری کال کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے۔
حالیہ ایئر بس A320 طیارہ کی تباہی کے بعد بھی حکومت کا روایتی طرزِ عمل سامنے آیا ہے۔ 30 طیاروں اور ہفتہ وار 100 پروازوں والی پاکستان ائیر لائن بیس بڑے حادثات اور ہزار سے زائد انسانی جانوں کے ضیاع کا ریکارڈ رکھتی ہے۔ حادثہ سے نہ سیکھنے کا مجرمانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اظہار افسوس، امدادی رقوم کے اعلانات، تحققیات کے لئے کمیٹی کے قیام سے آگے بات نہیں بڑھتی۔ یوں انتظامی معاملات اور پیشہ وارانہ رویوں میں بنیادی تبدیلی ایک خواب سے زیادہ نہیں۔ کُلی طور پر قیام پاکستان سے اب تک پاکستان کی فضائی حدود میں 84 حادثات ہوچکے ہیں۔ اس روایتی طرزِ عمل کے ہوتے ہوئے، ایک حادثہ کے بعد دوسرے حادثہ کا انتظار ہی بچتا ہے۔ اگر ہم کاک پٹ سے “مے ڈے” کا وحشت انگیز پیغام نہیں سننا چاہتے تو، غیر جانبدار تفتیش، زمہ داران کی نشان دہی، اور انتظامی و پیشہ وارانہ رویوں میں تبدیلی کے علاؤہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
✍️عبدالرحمٰن عمر ایڈووکیٹ