بائیس مئی، جمعہ کی سہ پہر فلائیٹ پی۔کے 8303 نے لاہور سے کراچی کے لئے اڑان بھری۔ اور ڈیڑھ گھنٹے بعد کراچی ائیرپورٹ پر لینڈنگ کی پہلی کوشش کی۔ لیکن لینڈنگ گیئر کی خرابی اور ٹائر نہ کھل سکنے پر ہدایات کے مطابق طیارہ فضا میں دوبارہ بلند ہوگیا۔ تھوڑی دیر فضا میں چکر کاٹنے کے بعد دوبارہ لینڈنگ کی کوشش میں رن وے سے ڈھائی سو میٹر دور تین منزلہ عمارت سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا۔ طیارے میں سوار 97 میں سے دو افراد کے سوا سبھی جاں بحق ہوگئے۔ طیارہ کی زد میں آنیوالے پچیس مکانات اور کئی گاڑیاں بھی تباہ ہوگئیں۔جہاں ہنستے بستے 95 انسان یک لخت بھیانک موت کا شکار ہوگئے۔ وہیں متاثرہ خاندانوں اور پورے ملک کیلئے یہ حادثہ انتہائی اذیت اور غم کا باعث ہے۔
حادثہ کے فوری بعد امدادی کارروائیوں کا آغاز ہوا۔ جائے وقوعہ پر آگ بجھائی گئی۔ لاشیں نکالی گئیں۔ جبکہ حکومت نے سرد خانوں میں لاشیں سنبھالنے اور شناخت کی سہولیات فراہم کر دی ہیں۔ جاں بحق افراد کیلئے شہادت کا اعزاز، متاثرین کے لئے امدادی رقوم کا اعلان، تحقیقات کا حکم، ذمہ داروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے، اور کوتاہی ثابت ہونے کی صورت میں مستعفی ہونے کے اعلانات بھی ہوچکے۔ تمام حکومتیں ہر حادثے کے بعد اظہار افسوس، لاشیں رکھنے اور شناخت کے انتظامات، امدادی رقم کے اعلان اور تحقیقاتی کمیٹی کے قیام، جیسے اقدامات اپنی زمہ داری سمجھتے ہوئے فوراً سر انجام دیتی آئی ہیں۔
لاشوں کی شناخت کے تکلیف دہ اور طویل عمل کے دوران ہی عوامی توجہ کسی دیگر واقعہ کیطرف منتقل ہو جاتی ہے۔ تحقیقات چلتی رہتی ہیں۔ حادثہ کے چند دن بعد غم اور افسوس سمٹ کر اجڑنے والے گھروں تک رہ جاتا ہے۔ پھر گاہے بگاہے امدادی رقوم یا تحقیقاتی رپورٹ بارے خبریں سامنے آتیں اور دب جاتی ہیں۔ وزیر ہوا بازی غلام سرور خان اور چیف ایگزیکٹو پی۔آئی۔اے ائیر مارشل ارشد ملک کی گفتگو اور میڈیا رپورٹس کے مطابق کسی قسم کا فنی نقص نہیں تھا، کوئی محکمانہ یا انتظامی کوتاہی بھی نہیں تھی۔ پائلٹ نے نامعلوم وجوہ کی بنا پر فضا میں چکر کاٹا، طیارے کا وارننگ سسٹم بند کردیا اور نقصان کو محدود رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے تنگ گلی میں طیارہ اتارنے کی کوشش کی۔ جس میں قیمتی جانی و مالی نقصان ہوا۔
واضح رہے کہ ائیر بس اے 320 قسم کا یہ طیارہ 10 سال تک چائنا ايسٹرن ايئر لائنز کا حصہ رہنے کے بعد چھ سال قبل یعنی 2014ء میں پی۔ آئی۔ اے کے فلِيٹ ميں شامل ہوا۔ اب تک مجموعی طور پر 25,860 پروازیں کر چکا تھا۔ مذکورہ طیارے کا آخری تفصيلی معائنہ پچھلے سال يکم نومبر کو کيا گيا تھا۔ میڈیا کی رپورٹس کے مطابق حادثے کا شکار ایئر بس میں پہلے سے ہی فنی خرابی تھی، انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے متعدد بار انتظامیہ کو خطوط بھی لکھے گئے۔ لیکن شنوائی نہ ہو سکی۔ پھر ادارہ میں کمانڈ اینڈ کنٹرول کو اپنے مزاج کے مطابق کرنے کی خاطر فوجی سربراہ نے نہ صرف لازمی سروس ایکٹ نافذ کیا ہے۔ بلکہ یونین اور ایسوسی ایشنز پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔ ایسی صورتحال میں پائلٹ یا دیگر عملہ کا کام کے حوالے سے جائز عذر بھی ملازمت کے خاتمہ کا باعث ہوسکتا ہے۔ ائیرپورٹ کے گرد 15 کلومیٹر تک کے علاقہ میں بلند رہائشی عمارات کی تعمیر کے باعث ائیرپورٹ موت کے کنویں کی صورت اختیار کرچکی۔ اگر ان سب عوامل کو مدِنظر رکھا جائے تو فنی خرابی، محکمانہ بد انتظامی، کرپشن اور مجرمانہ غفلت سامنے آنا بالکل عیاں ہے۔
شائد اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے، پائلٹس کی نمائندہ تنظیم پالپا اور عوامی مطالبہ کے برعکس پاکستان ائیر فورس کے افسران پہ مشتمل کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ حیران کن طور پر حکومتی ذرائع ماتحت افسران سے ادارہ کے چیف ایگزیکٹیو حاضر سروس ایئر مارشل کی موجودگی میں غیر جانبدار رپورٹ سامنے لانے کی امید دلا رہے ہیں۔ جو حادثہ کی وجوہات، ذمہ داروں کے تعین اور آئندہ ایسے حادثات کے تدارک کے لئے تجاویز مرتب کرے گی۔
یوں دیکھا جائے تو مختلف حلقوں کے تحفظات اور تنقید کے باوجود حادثہ کے بعد معاملات روایتی رنگ لئے ہوئے ہیں۔ جبکہ وزیر ہوا بازی اور چیف ایگزیکٹو پی۔ آئی۔ اے کی پریس بریفننگ اور میڈیا میں آنیوالی معلومات سے ہی تحقیقات کے رخ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یاد رہے کہ قیام پاکستان سے اب تک پاکستانی فضائی حدود میں 83 فضائی حادثات ہوچکے ہیں۔ سابقہ حادثات کے بعد قائم ہونیوالی تحقیقاتی رپورٹس، ذمہ داروں کو ملنے والی سزا اور سامنے آنیوالی تجاویز پہ متعلقہ محکموں کیطرف سے عملدرآمد پریشان کن موضوع ہے۔
اس حادثہ کے بعد غم کا شکار اہل پاکستان جنوبی کوریا کے وزیراعظم پر سخت نالاں ہے۔ ناراضگی کی وجہ موصوف کی متکبرانہ خاموشی اور اب تک استعفیٰ نہ دینا ہے۔ یہ وہی جنوبی کوریائی وزیراعظم ہیں۔ جنہوں نے ماضی میں ایک کشتی کے ڈوبنے پر موجودہ وزیراعظم پاکستان اور اس وقت کے اہم اپوزیشن لیڈر عمران خان صاحب کے مشورہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ حالانکہ وہ خود کشتی نہیں چلا رہے تھے۔ لیکن اس وقت یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا کہ کشتی ڈوبنے کے بعد جو مجھے کرنا چاہئے تھا، میں نہیں کرسکا، اس لئے میں استعفیٰ دے رہا ہوں۔ یہ واقعہ اس وقت کے اپوزیشن رہنما عمران خان نے ایک بڑے عوامی جلسے میں سنایا۔
کشتی کے مقابلہ میں حالیہ طیارہ حادثہ کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے، عوامی غصہ کسی قدر حق بجانب ہے۔
موجودہ وزیراعظم پاکستان سے جنوبی کوریا کے وزیراعظم کے دیرینہ اور اچھے تعلقات ہیں۔ عمران خان صاحب کو چاہئے کہ اپنی موجودہ حیثیت اور تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے جنوبی کوریا کے وزیراعظم کو معاملہ کی سنگینی کا احساس دلائیں، عوامی رنج و غم سے آگاہ کریں اور اعلیٰ جمہوری روایات کے “تسلسل” کو یقینی بنائیں۔ تاکہ غیر جانبدارانہ تحقیقات ہو سکیں۔ عمران خان صاحب سے جس کی توقع بے بنیاد نہیں۔ میرا نہیں خیال کہ کشتی کے حادثہ پہ استعفیٰ دینے والا وزیراعظم یا دیگر عہدیدار اب طیارہ حادثہ کی کھلی اور مجرمانہ وجوہات چھپانے کے لئے کرسی سے چمٹے رہنے پر ضد کریں گے۔ آخر طیارہ کا یہ حادثہ کشتی ڈوبنے سے بیسیوں گُنا سنگین ہے
۔عبدالرحمٰن عمر ایڈووکیٹ