مجھے اعتراف ہے، کہ میرے ایمان کی کمزوری، ناقص عقل، سامراجی پروپیگنڈہ سے مرعوب ہونے کیوجہ ہی تھی۔ کہ جب عالمی ادارہ صحت نے کورونا کو عالمی وبا قرار دیا۔ تو میں نے فوراً یقین کرلیا۔ بس ایک دفعہ گمراہی کے راستے پر چلنے کی دیر تھی پھر مجھے اٹلی، اسپین، فرانس، برطانیہ اور امریکہ میں ہونے والی اموات کا دکھ ہوتا رہا۔ میں نے جھوٹے میڈیا کی خبروں کو سچا سمجھنے کی غلطی کی۔ میں سامراج کی سازش کو نہ سمجھ سکا۔ اور اعدادوشمار پر یقین کرتا چلا گیا۔ اگرچہ میری رہنمائی کے لئے “کرونا،کورونا کجھ نیئں ہوندا” کے نعرے لگانے والوں نے بھی اپنی کوشش کی۔ واقعی کورونا نہیں تھا لیکن میری آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ اور میں سامراج کی سازش کا بری طرح شکار ہوگیا تھا۔ اسی لیے مختلف ملکوں سے مریضوں اور اموات کی خبروں کو سچا سمجھتا رہا۔ خود بھی ڈرتا رہا اور لوگوں کو بھی ڈراتا رہا۔ مجھے وزیراعظم پاکستان کی بات مان لینی چاہیے تھی کہ کورونا تو بس ہلکے پھلکے زکام کی مرض ہے۔ ملکی سطح کے دکانداروں نے بتایا بھی کہ کورونا نہیں ہے۔ یہ صرف اور صرف سامراج کی عالمی سازش ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں نے ان لوگوں کی رائے کو اہمیت نہ دی۔ میں سامراجی پروپیگنڈہ کا شکار ہو کر گھر میں چھپ گیا۔ گھر سے نکلنا بند کر دیا، اپنے تئیں تیس مار خان بن کر اپنے اور اپنے گھر والوں کو بچانے کی کوشش میں قید ہو کر بیٹھ گیا۔ میری آنکھیں تو اس دن کھل جانی چاہئے تھیں۔ جب 25 اپریل تک پچاس ہزار مریضوں اور ہزاروں اموات کا ٹارگٹ پورا نہ ہو سکا۔
مجھے اعتراف ہے کہ نا سمجھی کے کارن لاک ڈاؤن کے مطالبے کی حمایت کرتا رہا۔ سیاسی ایجنڈہ کے تحت نہ صرف کورونا کا خوف پھیلانے بلکہ کورونا کا شکار ہونے پر مجھے ڈاکٹرز کی مذمت کرنی چاہیئے تھی۔ لیکن میں ناسمجھی میں حمایت کرتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ کمزور ایمان اور سامراج کی غلامی میں قوم کو ایک ماہ سے زائد لاک ڈاؤن، برادشت کرنا پڑا۔مجھے اعتراف ہے کاروباری اور مذہبی قیادت کی کوششوں کا کہ جنہوں نے بروقت آواز اٹھائی۔اور مضبوط موقف سے دوکانیں کھلوا لیں۔ یوں سیزن مارے جانے کا خطرہ ٹل گیا۔ لاک ڈاون کھلنے کے ان چند دنوں میں ہی بھوک اور فاقے سے تنگ عوام نے بازاروں کی تنگی کو آشکار کر دیا۔ ایک ایک لقمے کو ترسی عوام نے جس طرح اربوں روپے کی خریداری کرکے دم توڑتی معیشت کو بچایا ہے۔ کورونا کے خلاف جس طرح اور جس جذبے سے خواتین، بچے، بوڑھے اور جوان کندھا سے کندھا ملا کر نکلے ہیں۔ یقیناً بچ جانیوالا مورخ ہماری اس قابل رحم “بہادری” کو لکھے گا۔ مجھے یقین ہوگیا ہے کہ کورونا سے ڈرا کر ویکسین کے نام پر مائیکرو چپ ہمارے جسموں میں داخل کرکے، سیٹلائٹ کے ذریعے ہمارا ایمان چرانے کی کوشش کی جائے گی۔ ہم زندہ قوم ہیں، ہمارا ایمان ہے کہ موت ہہر صورت آنی ہے اور پھر زندگی تو ہے ہی موت کی طرف سفر کا دوسرا نام۔ بچ جانے والا مورخ لکھے گا کہ ہم نے اجتماعی موت کا سفر کس رفتار سے طے کیا۔ بھلا ہو اعلیٰ عدالت اور وفاقی وزیر صحت کا جس نے آنکھوں پہ بندھی پٹی اتار پھینکی۔ میرے جیسے کئی ڈرپوک لوگ عدالتی فیصلہ پر بے حد مشکور ہیں کہ عدالت نے قوم کی دوبارہ آزادی پر مہر تصدیق لگائی۔ اب ہم جیسے خبطی اور وہمی لوگوں کو کوئی نیا خدشہ تراشنا ہوگا۔ جس کے انتظام میں ہم اسی ساعت سے جُت گئے ہیں۔ وطن عزیز کو پہلی فرصت میں آگے بڑھ کر عالم اسلام کی راہنمائی کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور دیگر امت مسلمہ کو اس جھوٹے خدشے سے نکالنا چاہئے۔ مجھے فخر ہے، ہمارے اداروں کی دور مار پالیسیوں پر۔
لیکن ایک بات بڑی حیرت انگیز ہے۔ عدالت عظمٰی کے فیصلے اور وفاقی وزیر صحت کی رپورٹ کے باوجود، کہ “پاکستان میں کوئی کورونا وبا نہیں ھے” سننے میں آرہا ہے کہ جاپان نے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، پاکستان کو ان چند ممالک میں شمار کیا ھے، جو کورونا کو روکنے کی بجائے، پھیلا رھے ھیں، جذبہ حب الوطنی اور اداروں کی اس توہین پر شدید غم و غصہ فطری ھے۔ کچھ جذباتی احباب تو جاپان کو اپنے بین البراعظمی میزائلوں کی رینج بتانے کی بات بھی کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں وفاقی وزیر صحت کی رپورٹ کے ہمراہ عدالتی فیصلے کی ایک حسب ضابطہ نقل حکومت جاپان کو ارسال کی جانی چاہئے۔ اب جاپانی اتنے بھی بیوقوف نہیں کہ اس فیصلے کی حکمت اور دوراندیشی کو سمجھ نہ سکیں۔ اگر جاپان پشیمانی کا اظہار نہ کرے تو بِل گیٹس کی سازش سمجھانے کیلئے سینئر دفاعی تجزیہ کار اور وفاقی وزیرِ صحت کو خصوصی طور پر جاپان بھجوانا چاہیے، آخر ہم یاروں کے یار ہیں اور جاپان پہ تو سامراج کے “ظلم کا لمبا چوڑا قرض بھی ہے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ “دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے