گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا کہاں سے آئے. آواز لاالہ الااللہ
About today’s education system in Pakistan
آپ نے ضرور ہولی وڈ کی فلم دیکھی ہوں گی اس میں جو گھر دکھایا جاتا ہے اس کے گیراج میں ایک ٹول بکس موجود ہوتا ہے جہاں بڑوں کے ساتھ بچے بھی کام کرتے دیکھے جا سکتے ہیں جس سے ان کے اندر سکلز پیدا ہوتی ہے ہمارے ہاں مطلب پاکستان میں ایسا نہیں ہے یا تو نا ہونے کے برابر ہے ہم نے اکثر بیشتر آیک دوسرے کو کہتا سنا ہو گا کہ ہم مغرب سے بہت پیچھے ہیں اس شروات کا مقصد ہر گز یہ نہیں کے بچوں کو گیراج میں کام کرانا شروع کر دو وہ چائلڈ لیبر کے زمرے میں آتا ہے اور نہ ہی یہ کے مغرب کی مکمل ڈولیپمنٹ کا انحصار اس چیز پہ ہے۔ میرا یہاں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ بچوں کو پڑھائی کے ساتھ سکل ڈویلپمنٹ کا شوق پیدا کرتے جس سے بچے سوال پوچھتے اور پھر ان میں جستجو کا سوق پیدا ہوتا۔ البیرونی آگر ستاروں کو دیکھ کر تجسس نا کرتے اور ارسطو کی تھیوری کو چیلنج نہ کرتے تو پنڈدادن خان بیٹھ کے زمیں کا قطر کیسے معلوم کرتے۔ پر آجکل ہمارہ معاملہ الٹا ہو چکا ہے بچپن میں ابو کے ڈر سے سوال نہیں کرتے کوئی کھلونا جستجو کے ہاتھوں بچہ مجبور ہو کے توڑ دے تو ڈانٹ پڑتی جستجو کا عنصر لا شعور میں ڈر لے لیتا۔ پھر سکول کا نمبر آتا ہے سرکاری نوکری والے استاد صاحبان کو قلم چلانے سے زیادہ ڈنڈا چلانے کا شوق ہوتا ہے سوال کی جرآت کرنے والے طالب علموں کو وہ جواب ملتا ہے کہ سوال کیا تھا بھول جاتے اس کے بعد اگر خوش قسمتی سے کوئی کالج پہنچ جائے تو وہاں سٹوڈنٹ نماں گنڈا تنظیموں سے اس کا واسطہ پڑتا ہے اگر پھر بھی پاس ہوں کے یونیورسٹی پہنچ جائے تو وہاں کے پروفیسرز پہلے ہی کہ دیتے ہے حود سے سوچوں گے اور سوال کروں گے تو فیل ہو جاؤں گے لیکن لیکچر ختم کرنے کے بعد کوئی سوال یہ کہنا نہیں بھولتے۔ پھر ہم کہتے ہیں مغرب ہم سے آگے کیوں ہے۔ بچے پودوں کی طرح ہوتے ہے ان کو جس طرح بڑا کروں ویسے بنتے ہے آپ کا بیٹا سٹیفن ہاکنگ کیوں نہیں بن سکتا ان میں سوال پوچھنے کا جذبہ پھولنے دو۔ آنے والی نسل کو وہ دو جو ہمیں نہیں ملا۔ جستجو