جعفرآباد ہر لحاظ سے اپنی پہچان آپ ہے۔ بلوچستان کا گرین بیلٹ کہلانے والا یہ علاقہ ابھی تک محرومیوں میں گھرا ہوا ہے۔ نہ پینے کا صاف پانی، نہ سڑکیں، نہ ہسپتال اور سب سے بڑی تعلیمی محرومی۔
چند روز قبل جب لاہور سے چھٹیاں گزارنے گھر جا رہا تھا تو روجھان جمالی سے گزر ہوا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سکول وین اس بڑے معروف گاؤں کے سامنے آ رکی اور کچھ بچے اتر کر اس گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ڈیرہ اللہ یار جو کہ 8 کلو میٹر یا اس سے کچھ زیادہ طویل مسافت پر واقع ہے، وہاں سے آ رہے ہیں۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے گاؤں کے پاس کوئی سکول نہیں اس وجہ سے طویل سفر کر کے وہاں جاتے ہیں۔
ایک دم سے عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔ سوچا اتنا زرخیز علاقہ اور یہ حال۔ اس ضلع کو جعفرآباد نام دینے کا مقصد میر جعفر خان جمالی کے نام کو زندہ رکھنا تھا لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ ایک بہترین تعلیمی ادارہ ان کے نام سے آباد کیا جاتا تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔
اس ضلع کی تحصیل اوستا محمد میں قریباً 80 رائیس ملز ہیں، پر وہاں گرلز کالج کی کوئی عمارت نہیں اور بوائز کالج تو ماشااللہ ہے۔ پھر پرائمری سے لے کر میٹرک تک کے سکولز کا حال تو بتانے کے لائق نہیں۔ اساتذہ کو اپنی یونین بازی سے فرصت نہیں ملتی، بچوں کو خاک پڑھائیں گے۔
ایک استاد سے مسئلہ ڈسکس کرنے کا سوچا تو انہوں نے پنجاب پر الزام تراشیوں کی حد کر دی۔ لیکن ساتھ ہی یہ جان کر حیران ہوا کہ وہ پچھلے کافی عرصہ سے سکول نہیں گئے اور وجوہات کچھ ایسی تھیں کہ جان کر مزید حیران ہوا۔ پہلی وجہ سکول کافی دور ہے اور دوسری بچے نہیں آتے۔ ارے جناب جب آپ جائیں گے نہیں تو بچے کیوں کر آنے لگے۔
میرے لوگ ہمیشہ پنجاب کو قصوروار ٹھہرایا کرتے ہیں لیکن کبھی اپنا گریبان نہیں جھانکتے، اپنی غلطیوں کو نہیں سدھارتے، بس الزام تراشی سے خود کو مطمئن کرتے ہیں۔
ان سب باتوں کا مقصد کسی کا دل دُکھانا نہیں، بس یہ پوچھنا ہے کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں۔ آخر کیوں؟!
مجھے تقریباً 8 سال ہوگئے پنجاب میں مختلف تعلیمی اداروں میں جانے اور وہاں کے اساتذہ سے مستفید ہونے کا شرف حاصل ہوا پر کبھی بھی کوئی ایسی بات محسوس نہیں کی کہ وہ بلوچستان یا وہاں کی عوام کے خلاف ہوں بلکہ اکثر دیکھا کہ ہمیں وہاں پا کر ان کی خوشی میں اضافہ ہوا ہے۔
لاہور کے رنگ روڈ کو ایک سال سے کم عرصہ میں بنتے دیکھا پر اپنے شہر اور وہاں تک جانے والی مین روڈ کو پندرہ برس میں مکمل ہوتے ہوئے نہیں دیکھا، شاید میرے بچوں کے بچے دیکھ پائیں۔
جو بھی ہے، سب ہمارا قصور ہے۔ ہم اپنے لیے ایسے حکمران چن لیتے ہیں جن کی آدھی حکومت تو یہ سوچتے ہوئے گزر جاتی ہے کہ کچھ باقی تو نہیں بچا۔ ہمیں تباہ کرنے میں ان کا ہاتھ ہے، پر پھر بھی ہم یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ ہائے پنجاب کھا گیا۔
قارئین کو کوئی بات بری لگے تو مجھ سے گلہ نہ کیجیے گا بلکہ اپنے حالات پر غور کیجیے گا۔